موت کا چہرہ

کہتے ہیں ایک آدمی کو موت کا خوف و خطرہ لاحق ہو گیا ۔وہ بھاگنے لگا اسے تیز بہت تیز آواز آئی:موت تیرے پیچھے نہیں ، تیرے آگے ہے
وہ آدمی فورا مڑا اور الٹی سمت بھاگنے لگا ۔۔۔آواز آئی:۔۔

موت تیرے پیچھے نہیں ، تیرے آگے ہے
وہ آدمی بولا:
پیچھے کو دوڑتا ہوں تو پھر بھی موت آگے ہے ، آگے کو دوڑتا ہوں تو پھر بھی موت آگے ہے آواز آئی:

موت تیرے ساتھ ہے ، تیرے اندر ہے ٹھہر جاؤ ، تم بھاگ کر نہیں جا سکتے ، جو علاقہ زندگی کا ہے وہ سارا علاقہ موت کا ہے۔۔
اس آدمی نے کہا کہ: اب میں کیا کروں؟

جواب ملا :صرف انتظار کرو ، موت اس وقت خود ہی آ جائے گی جب زندگی ختم ہو گی اور زندگی ضرور ختم ہو گی ، زندگی کا ایک نام موت ہے ، زندگی اپنا عمل ترک کر دے تو اسے موت کہتے ہیں۔۔
اس آدمی نے پھر سوال کیا: مجھے موت کی شکل دکھا دو تا کہ میں اسے پہچان لوں۔۔
آواز آئی:
آئینہ دیکھو ، موت کا چہرہ تیرا اپنا ہے ، اسی نے میت بننا ہے ، اسی نے مردہ کہلانا ہے موت سے بچنا ممکن نہیں۔۔

واصف علی واصف کی کتاب ۔۔۔۔ قطرہ قطرہ قلزم سے انتخاب

صدقہ

صدقہ جب انسان اپنے ہاتھ سے نکالتا ہے۔تو صدقہ اس وقت پانچ جملے کہتا ہے۔

۱۔ میں فانی مال
تھا تو نے مجھے بقا دے دی۔


۲۔ میں تیرا دشمن تھا اب تو نے مجھے اپنا دوست بنا لیا۔


۳۔آج سے پہلے تو میری حفاظت کرتا تھا اب میں تیری حفاظت کروں گا۔


۴۔میں حقیر تھا تو نے مجھے عظیم بنا دیا۔


۵۔ پہلے میں تیرے ہاتھ میں تھا اب میں خدا کے ہاتھ میں ہوں۔

بلا عنوان



جوانی ،حسن،غمزے،عہد،پیماں،قہقہے ،نغمے

رسیلے ہونٹ،شرمیلی نگاہیں ،مرمریںباہیں



یہاں ہر چیز بکتی ہے

خریدارو ! بتاو کیا خریدو گے؟


بھرے بازو ،گٹھیلے جسم،چوڑے آہنی سینے

بلکتے پیٹ،روتی غیرتیں،سہمی ہوئی آئیں



یہاں ہر چیز بکتی ہے

خریدارو ! بتاو کیا خریدو گے؟


زبانیں،دل،ارادے،فیصلے،جانبازیاں،نعرے

یہ آئے دن کے ہنگامے، یہ رنگا رنگ تقریریں



یہاں ہر چیز بکتی ہے

خریدارو ! بتاو کیا خریدو گے؟


صحافت،شاعری،تنقید،علم وفن،کتب خانے

قلم کے معجزے،فکر و نظر کی شوخ تحریریں



یہاں ہر چیز بکتی ہے

خریدارو ! بتاو کیا خریدو گے؟


اذانیں،سنکھ،حجرے،پاٹھ،شالے،داڑھیاں،قشقے

یہ لمبی لمبی تسبیحیں ِ،یہ موٹی موٹی مالائیں



یہاں ہر چیز بکتی ہے

خریدارو ! بتاو کیا خریدو گے؟


علی الاعلان ہوتے ہیں یہاںسودے ضمیروںکے

یہ وہ بازار ہے جس میں فرشتے آکے بک جائیں



یہاں ہر چیز بکتی ہے

خریدارو ! بتاو کیا خریدو گے؟



قتیل شفائی


صبر

انسان کو اْس با ت پر صبر کر نے کے لیے کہا گیا ہے ‘ جو اسے پسند نہ ہو اور جس کا ہو نا نا گزیر ہو۔
ہر وہ عمل جو بردا شت کر نا پڑے ‘ صبر کے ذیل میں آتا ہے۔ ناقا بل برداشت کو ئی واقعہ نہیں ہو تا ‘ جس کو دیکھنے والے اور پڑھنے والے نا قابل برادشت کہتے ہیں۔ سانحہ ہو یا حا دثہ جس کے ساتھ پیش آرہا ہے وہ تو اس میں سے گزررہا ہے ‘ رو کر یا خا مو ش رہ کر۔
انسا ن کو صبر کی تلقین کی گئی ہے ‘ اس لیے کہ یہ زندگی ہما ری خواہشا ت کے مطابق نہیں ہو تی۔ جہا ں ہما ری پسند کی چیز ہمیں میسر نہ آئے ‘ وہا ں صبر کا م آتا ہے۔ جہا ں ہمیں نا پسند واقعا ت اور افرا د کے سا تھ گزر کر نا پڑے ‘ وہاں بھی صبر کا م آ تا ہے
صبر کا نا م آتے ہی اذیت کا تصو ر آتا ہے۔ نا پسند ید ہ زند گی قبو ل کر نے کی اذیت یا پسند ید ہ زند گی تر ک کر نے کی اذیت۔ یہ اذیت احساس کی لطا فت کی نسبت سے بڑھتی اور کم ہو رہتی ہے۔
کو ئی زند گی ایسی نہیں جو اپنی آرزو اور اپنے حا صل میں مکمل ہو ‘ برا بر ہو کبھی آرزو بڑھ جا تی ہے اور کبھی حاصل کم رہ جا تا ہے۔ صبر کا خیا ل ہی اس با ت کی دلیل ہے کہ انسان جو چا ہتا ہے وہ اسے ملا نہیں۔
انسان محنت کر تا ہے ‘ کو شش کر تا ہے ‘ مجا ہد ہ کر تا ہے ‘ ریا ضت اور عبا د ت کر تا ہے کہ زند گی اطمینا ن اور آرام سے گزر ے اور ما بعد حیا ت کے بھی خطرا ت نہ رہیں ‘ لیکن زند گی عجب ہے۔ اس میں جب کو ئی مقا م حاصل ہو تا ہے ‘ پسند ید ہ مقا م ‘ تب بھی ہمیں احساس ہو تا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ رہ گیا ہے یا کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غیر ضرور ی اور غیر منا سب شئے شا مل ہوگئی ہے ‘ اْس زند گی میں بس ایسی صو ر ت میں انسان بے بس ہو تا ہے۔ صبر کے سوا کو ئی چا رہ نہیں ہو تا ہے۔
انسا ن شا دی کر تا ہے۔ شا دی کا معنی خو شی ہے ‘ لیکن کچھ ہی عر صہ بعد انسان محسو س کر تا ہے کہ شا د ی کا عمل ضرا ئض اور ذمہ دا ریو ں کی داستا ن ہے۔ حقو ق کا قصہ ہے۔ صر ف خوشی کی بات نہیں۔ اس میں رنج اور رنجشیں بھی شا مل ہیں۔ دو انسان ‘زو جین ‘ مل کر سفر کر تے ہیں۔ ایک دوسر ے کے لیے با عث مسر ت ہو نے کے وعدے اور دعو ے لیکر ہم سفر بنتے ہیں اورکچھ ہی عر صہ بعد ایک دو سر ے کو برداشت کر نے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ خوش رہنے کا تصو ر ختم ہو جا تا ہے۔ صبر کر پڑتا ہے۔ اب یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اولا د ہو نے کے بعد انسان کو محسو س ہو تا ہے کہ وہ ایک خو بصو ر ت ر سی سے جکڑا گیا ہے۔ اسکی آزادی اور آزادخیا لی ختم ہو گئی ہے۔ اس پر عجیب و غر یب فرا ئض عا ئد ہو گئے ہیں۔ محبت کے نا م پر مصیبت میں گر فتا ر ہو گیا ہے۔ لیکن اب صر ف صبر ہے۔ یہی تلقین ہے کہ ہو جا نے واے واقعا ت پر افسوس نہ کر و ‘ صبرکر و۔
صبر کا مقا م اس وقت آتا ہے ‘ جب انسان کو یہ یقین آجائے کہ اس کی زند گی میں اس کے عمل اور اس کے ارادے کے ساتھ ساتھ کسی اور کا عمل ‘کسی اور کا ارادہ بھی شامل ہے۔ اپنے حا ل میں دوسر ے کا حا ل شا مل دیکھ کر انسان گھراتا ہے اور جب اسے ایک اور حقیقت کا علم ہو تا ہے کہ اس ارادو ں اور اور عمل میں اسکے خا لق و ما لک کا امر شامل ہے اور کبھی کبھی یہ امر ایک مشکل مقا م سے گزرنے کا امر ہے‘ تو انسان سوچتا ہے کہ اگر با ت اپنی ذات تک ہو تو بد ل بھی سکتی ہے ‘ لیکن اگر فیصلے امر مطلق کے تا بع ہیں ‘تو ٹل نہیں سکتے۔ یہا ں سے انسان اپنی بے بسی کی پہچا ن شرو ع کر تا ہے۔ بے بسی کے آغا ز سے صبر کا آغا ز ہو تا ہے۔
خو شی میں غم کا دخل ‘ صحت میں بیما ری کا آجا نا ‘ بنے ہو ئے پر و گرا م کا معطل ہو نا ‘ کسی اور انسا ن کے سی عمل سے ہما ری پْر سکو ن زند گی میں پر یشا نی کا امکا ن پید ا ہو نا ‘ سب صبر کے مقا ما ت ہیں۔
تکلیف ہما ر ے اعما ل سے آ ئے یا اس کے حکم سے ‘ مقا م صبر ہے ‘ کیو نکہ تکلیف ایک اذیت نا ک کیفیت کا نا م ہے۔ تکلیف جسم کی ہو ‘ بیما ری کی شکل میںیا رو ح کی تکلیف ‘ احساس مصیبت یا احساس تنہا ئی یا احساس محرو می کی شکل میں مقا م صبر ہے۔ انسان جس حا ہت سے نکلنا چا ہے اور نکل نہ سکے ‘ وہا ں صبر کرتا ہے۔ جہاں انسان کا علم ساتھ نہ دے ‘ ا س کی عقل ساتھ نہ دے اوراس کا عمل اس کی مدد نہ کر سکے ‘وہا ں مجبو ری کا حساس اسے صبر کے دامن کا آسراتلاش کر نے کی دعوت دیتا ہے۔
صبر کا تصور دراصل مجبوری کا احساس نہیں ہے۔ صبر کے نام کے ساتھ ہی ایک اور ذات کا تصور واضح طور پر سامنے آتا ہے کی ہم اپنی زند گی میں سب کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی زند گی کے مالک ہو کر بھی مکمل ما لک نہیں۔ ہم مختار ہو کر بھی مختار نہیں۔ ہم قدرت رکھنے کے با وجود قادر نہیں۔ ہم اور ہما ری زند گی ہزارہا اور زند گیوں کے دائرہ اثر میں ہیں۔ہم اور ہما ری ز ند گی ایک اور ذات کے ارادے کے تا بع ہیں اور وہ ذات مطلق ہے۔ اس کا امر غا لب ہے۔ وہ جو چا ہتا ہے کر تا ہے۔ ہما رے ساتھ ہما ری زند گی کے ساتھ ‘ ہما ظاہر کے ساتھ ‘ ہما رے باطن کے ساتھ ‘ ہما ری تنہا ئی کے ساتھ ‘ہما رے گردوپیش کے ساتھ ‘ ہما رے وا لدین کے ساتھ ‘ ہما تی اولاد کے ساتھ ‘ ہما رے ہرہر خیال کے ساتھ۔ اور وہ ذات چا ہے تو ہما رے مر تبے عذاب بنا دے ‘ چا ہے تو ہما ری غر یبی اور غر یب الوطنی کو سرفرازیاں عطا کر دے۔ وہ ذات یتیموں کو پیغمبر بنا دے اور چا ہے تو مسکینو ں کو مملکت عطا کر دے۔ اس ذات کا امر اور عمل اٹل ہے۔ اس کے فیصلے آخری ہیں۔ اس کے حکم کے تا بع ہیں۔ انسان کی خو شیاں ‘ انسان کے غم ‘ انسان کی زند گی ‘ انسان کی موت ‘ انسان کی محبت ‘ انسان کے خوف ‘ انسان کے جذبات واحساسات۔ وہی ذات ہے ‘ جو انسان کو بار بار حکم فر ما تی ہے کہ صبر کرو۔ یعنی اپنی زند گی میں میر ے حکم سے پیدا ہو نے وا لے حال کو سمجھنے سے پہلے تسلیم کر لو۔ جو سمجھ میں نہ آسکے ‘ اس پر صبر کر و اور جو سمجھ مٰن آئے ‘ اس پر مزید غور کرو۔ صبر کی منزل ایک مشکل منزل ہے۔ فقر میں ایک بلند مقام ہے صبر کا۔
وہ صبر کر نے وا لو ں کے سا تھ ہے۔ عجب بات ہے کہوہ تکلیف دور نہیں کر تا اور برداشت کر نے وا لوں کے ساتھ رہتا ہے اور تکلیف بھیجنے وا لا خودہی۔ بس یہی انسانی عظمت کا راز ہے۔ انسان کی تسلیم ورضا کا روشن باب ‘ انسان کی انسا نیت کا ارفع مقام کہ وہ سمجھ لے کہ تکلیف دینے والا ہی را حت جاں ہے۔یہ زند گی اس کی دی ہو ئی ہے اسی کے حکم کی منتظر ہے۔ وجود اس کا بنایا ہوا ہے اسی کے امر کے تا بع ہے۔ وہ ستم کر ے تو ستم ہی کرم ہے۔ وہ تکلیف بھیجے تو یہی را حت ہے۔ وہ ذات ہما رے جسم کو اذیت سے گذارنے ‘تو بھی یہ اس کا احساس ہے۔
صبر کر نے وا لے اس مقام سے آشنا کر وا دیئے جا تے ہیں کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی تو فیق دے رہا ہے۔ اور اس مقام پر ‘‘صبر‘‘ ہی‘‘ شکر‘ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مقر ب اذیت سے گزرتے ہی سے تو گزرتے ہیں ‘ لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گذرے۔ وہ شکر کرتے ہو ئے وا دی اذیت سے گذر جا تے ہیں۔
دنیا دار جس مقام پر بیزار ہو تا ہے ‘مومن اس مقام پر صبر کر تا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے ‘ مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے ‘ کیو نکہ یہی مقام وصال حق کا مقام ہے۔ تمام واصلین حق صبر کی وادیوں سے بہ تسلیم ورضا گزر کر سجدہ شکر تک پہنچے۔ یہی انسان کی رفعت ہے۔ یہی شان عبودیت ہے ‘ کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو ‘ دل یو دوں سے زخمی ہو اور سر نیاز سجدہ میں ہو کہ‘‘ اے خالق !مجھے صبر استقا مت کی منز لیں عطا کر نے وا لے ! مجھے تسلیم و رضا کے معراج عطا کر نے والے ! تیرا شکر ہے ‘ لاکھ بار شکر ہے کہ تو نے مجھے چن لیا ‘ اپنا اورصرف اپنا ‘ تیری طرف سے ہر آنے والے حال پر ہم را ضی ہیں۔ ہم جا نتے ہیں کہ ہم اور ہما ری زند گی بے مصرف اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تو ہے۔ جس نے ہمیں تاج تسلیم ورضا پہنا کر اہل دنیا کے لیے ہما رے صبر کا ذکر ہی با عث تسکین روح و دل بنایا۔‘‘
بیکسی کی داستان بننے والے امام عالی مقام بیکسوں کے لیے چارہ ساز بن کر آئے۔یہ داستان اہل علم کے لیے نہیں ‘ یہ اہل نظر کا مقام ہے ‘ اہل شکر کے لیے۔اْن کے لیے جو ہر حال پر را ضی رہتے ہیں۔ جن لو گوں پر اس کا کرم ہوتا ہے ‘ ان کی آنکھیں تر رہتی ہیں۔ ان کے دل گداز رہتے ہیں ´ ان کی پیشا نیا ں سجدوں کے لیے بیتاب ر ہتی ہیں۔ ان کے ہاں تکلیف رہتی ہے ‘ لیکن ان کی زبان پر کلمات شکر رہتے ہیں۔ مقامات صبر کو مقا مات شکر بنا نا خو ش نصیبوں کے کام ہیں۔ ایسی خوش نصیبی زمین والے ان کی تکلیف پر اظہار غم کر یں اور آسمان وا لے ان پر سلام بھیجیں۔صبر وا لواں کی شان نرالی ہے۔ ان کا ایمان قوی ہے۔ ان کے درجات بلند ہیں۔ ان کے جسم پر پیوند کے لباس ہیں اور ان کے در پر جبرئیل جیسے غلام ہیں۔ اللہ صبر کرنے وا لو ں کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ سے ‘ ہمیشہ کے لیے۔

میں نے دیکھا نہیں خدا کو تو کیا غم ہے

میں نے دیکھا نہیں خدا کو تو کیا غم ہے
میری ماں کا دیدار بھی بھلاکچھ کم ہے

رب نے بخشی ہے وسعتیں کہکشاؤں کی سی

خطائیں مری چھپانے کو وہ آنچل کہاں کم ہے

مجھے بھلاحوادس کا کیونکر ہو خوف لاحق

دیکھا ہے اکثر اسکی دعاؤں میں بڑا دم ہے

جو بکھرنے لگوں تو جی اٹھوں یہ سوچ کر

مرے لۓ بھی دنیا میں اک حسیں گوشہ نرم ہے

گر شریعت نے باندھ نہ رکھی ہوتی میرے زباں تو
غرور میں کہتا کہ یہ ہے میرا خدا یہ میراصنم ہے

بن کہ رہتی ہے وہ اک پرسکوں چھاؤں کی مانند

پھر بھی جانے کیوں رہتی اسکی آنکھ پر نم ہے

کسی بات کا کبھی نہ گِلا کیا اس نے بڑوں سے

آخر اسہی کو رکھنا انکی بڑائ کا بھرم ہے


کیا خبر وہ کبھی پیٹ بھر کھاتی بھی ہے یا نہیں

پر مجھ سے کبھی نہ کہا کہ بیٹا آج کھانا کم ہے

جانے کبھی رات کو بھی وہ سکوں پاتی ہے یا نہیں

پر بچھاتی ہمیشہ میرےلۓ وہ بستر نرم ہے


خوشیاں اپنی ساری کردیں دوسروں پر نثار

بدلے میں لے لیا ان سب کا ہر اک غم ہے

کبھی اسے کہہ پاؤں گا کہ کتنا چاہتا ہوں اسے میں

یہ مری خصلت کم گوئ بھی اس پر اک ستم ہے

لکھنے کی سکت باقی نہیں ورنہ لکھتا عمر بھر

ماں! یہ قلم بھی تیرے احترام میں آج خم ہے

<<<<<>>>>>


ایک شعر


اسی لیےکوئی زیادہ رکتا نہیں ہے یہاں

لوگ کہتے ہیں میرے دل پہ ترا سایہ ہے



عورت اور تعلیم

تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو ا
ربابِ نظر موت

بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت

ڈر جاتا ہوں اکثر

بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر

شیرازہ ملت ہوں ، بکھر جاتا ہوں اکثر


میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر

طوفان کے سینے میں اُتر جاتا ہوں اکثر


میں موت کو پاتا ہوں کبھی زیرِ کفِ پا

ہستی کے گماں سے بھی گزر جاتا ہوں اکثر


مرنے کی گھڑی آئے تو میں زیست کا طالب

جینے کا تقاضا ہو تو مر جاتا ہوں اکثر


رہتا ہوں اکیلا میں بھری دنیا میں واصف

لے نام مرا کوئی تو ڈر جاتا ہوں اکثر



واصف علی واصف

دھرتی نوں اسمان بناوے عشق دی ایہہ تاثیر

دھرتی نوں اسمان بناوے عشق دی ایہہ تاثیر
عاشق کہن امام رانجھے نوں ، ہیر اے معشوقاں دی پیر

ایہہ جیون اک سُندر سُفنہ ، ادھے راہ چ مُک جاندا اے
عمر بچاری رو رو لبھدی خواباں دی تعبیر

میں ہساں تے دھرتی ہسے ، روواں تے رووے اسمان
میں ہاں قادر ، قدرت میری ، میں اپنی تقدیر

عشق ہے اپنا آپے کعبہ ، عشق قرآن حدیث
عشق "انا اللہ" ، اللہ اللہ ! کون عشق دا پیر

عشق فرید تھلاں دا راہی رو رو عمر گزراے
عشق ہری اے ہرہر اندر ، عشق اے بھگت کبیر

تیرے میرے رشتے کُوڑے ، کُوڑا سب پسار
"ماپے" ، "چاچے" ، "مامے" ، کاہدے ، عشق دے کیہڑے ویر

عشق "الست" ، "بلٰی" دا قصہ ، عشق نفی اثبات
کثرت دی وچ عشق دی وحدت ، وحدت وچ تکثیر

عشق مزمل ، عشق مدثر ، طہٰ تے یسین
ظاہر باطن ذات عشق دی ایہو مُڈھ اخیر

عشق شہید شہادت حق دی ۔ عشق رضا دا بندہ
عشق اویس ، ابوذر جامی ، عشق علی شبیر

عشق دا ڈیرہ سولی اُپر ، عشق تے موت حرام
وصل فراق تُوں عشق اگیرے ، عشق سمیع بصیر

مر کے جیندا ، جی کے مَردا ، عشق بڑا کجھ کردا
"موتو قبل" ، "بل احیاھم" عشق دی ذات قدیر

عقلاں نال عشق نہ ہُندا ، عشق دی اُلٹی چال
عشق ہووے تے وگدے
واصف اکھاں دے وچ نیر

* بھرے بھڑولے از واصف علی واصف سے لیا گیا کلام


طائرِ لاہوتی از واصف علی واصف

طائرِ لاہوتی

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی
ناسوتی نے کب مجھ کو، اس حال میں پہچانا

میں سوز محبّت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ

میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ


شب چراغ - واصف علی واصف


بھرے بھڑولے، واصف علی واصف

ایہہ بن سَن موتی انمول
ہنجو سانبھ کے رکھنا کول


شہر دے بُوے کُھل جاون گے
پہلے دِل دا بُوا کھول

جس دے ناں دی ڈھولک وجدی
اوسے یار نوں کہندے ڈھول

جو کِیتا تُوں چنگا کِیتا
دَبّی رہن دے، اَگ نہ پھول

میرے ورگا مل جاوے گا
پہلے اپنے ورگا ٹول

سونے ورگی اے جوانی
اینویں نہ مٹی وِچ رول

اج تے پتھّر وی پُچھدا اے
کیہہ چاہناں ایں واصف بول


بھرے بھڑولے، واصف علی واصف


ماں

ماں کے نام

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں


فکر میں بچوں کی کچھ اسطرح گھل جاتی ہے ماں

نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں

اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن

چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں

روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے
چوٹ لگتی ہے ہمیں اور چلاتی ہے ماں

اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح
اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں

گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر

ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آجاتی ہے ماں

دے کے بچوں کو ضمانت میں رضائے پاک کی

پیچھے پیچھے سر جھکائے دور تک جاتی ہے ماں

لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم

ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں

وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر

اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے

کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو

ذندگی بھر کا صلہ اک فاتحہ پاتی ہے ماں
<<<<<<>>>>>>


بابا اشفاق احمد کی" سفر در سفر" سے انتخاب

انتظار کرنے والے

میں نے انتظار کرنے والوں کو دیکھا ہے۔انتظار کرتے کرتے سو جانے والوں کو بھی اور مر جانے والوں کو بھی

۔میں نے مضطرب نگاہو ں اور بے چیں بدنوں کو دیکھا ہے

۔آہٹ پر لگے ہوئے کانوں کے زخموں کو دیکھا ہے۔انتظار میں کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا ہے۔منتظر آدمی کے دو وجود ہوتے ہیں

۔ایک وہ جو مقرر جگہ پر انتظار کرتا ہے،دوسرا وہ،جو جسدِخاکی سے جدا ہو کرپزیرائی کیلیئے بہت دور نکل جاتا ہے۔جب انتظار کی گھڑیاں دنوں ،مہینوں اور سالوں پرپھیل جاتی ہیں تو کبھی کبھی دوسرا وجود واپس نہیں آتااور انتظار کرنے والے کا وجود،اس خالی ڈبے کی طرح رہ جاتا ہے ،جسے لوگ خوبصور ت سمجھ کر سینت کے رکھ لیتے ہیںاور کبھی اپنے آپ سے جدا نہیں کرتے۔یہ خالی ڈبہ کئی بار بھرتا ہے۔قسم قسم کی چیزیں اپنے اندر سمیٹتا ہے لیکن اس میں وہ لوٹ کر نہیں آتاجو پزیرائی کیلئے آگے نکل گیا تھا۔ ٰٓایسے لوگ بڑے مطمئِن اور پورے طور پر شانت ہو جاتے ہیں۔ان مطمئِن پر سکون اور شانت لوگو ں کی پر سنیلٹی میں بڑا چارم ہوتا ہے اور انہِیں اپنی باقی ماندہ زندگی اسی چارم کے سہارے گزارنا پڑتی ہے۔یہی چارم آپ کو صوفیاء کی زندگی میں نظر آہے گا۔یہی چارم عمر قیدیوںکے چہروں پر دکھائی دے گااور اسی چارم کی جھلک آپ کوعمر رسیدہ پروفیسروں کی آنکھوں میں نظر آئے گی۔

انسانیت سے محبت ﴿علیم الحق حقی کے ناول عشق کا عین سے ایک اقتباس


محبت کر۔۔۔محبت کے سوا کیا کرسکتا ہے۔اللہ کی غلامی تو فرض ہے۔اس کا حکم بجا لانے میں تو اپنی ہی فلاح ہے۔۔۔ہاں ،محبت اس کے لئے ہے۔سمجھا کچھ۔۔



"سمجھ تو گیا ابا، پر محبت کی تو نہیں جاتی، ہوجاتی ہے۔"

ٹھیک کہتا ہے، لیکن محبت بھی بی سبب کبھی نہیں ہوتی۔۔۔کبھی یہ ہمدردی کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔۔کبھی اس کا سبب کوئی خواہش ہوتی ہے، کبھی آدمی محبت کی طلب میں محنت کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ اسے جواب میں محبت ملے گی اور کبھی آدمی کسی کے احسانات کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔۔۔تیرے پاس محبت کا سبب تو موجود ہے۔۔۔۔۔۔محبت کا سامان تو کر۔۔۔۔۔۔

"کیسے کروں ابا۔"

ہر وقت خدا کے احسانات یاد کیا کر۔۔۔غور کیا کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے۔۔یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی۔۔۔۔پھر تو بے بسی محسوس کرئے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے۔۔وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرئے گی۔۔تو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے اتنا نوازا ، تجھ سے محبت کی۔۔۔۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں کروڑوں انسانوں کے بیچ میں تو کتنا حقیر ہے۔۔سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری پہچان نہیں۔۔۔۔۔کوئی تجھ پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالے گا۔۔۔۔۔۔۔کسی کو پروا نہیں ہوگی کہ الہٰی بخش بھی ہے لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے، تیری ضرورت پوری کرتا ہے، تیری بہتری سوچتا ہے اور تجھے اہمیت دیتا ہے۔۔۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی اور پھر تجھے خدا سے عشق ہوجائے گا۔

لیکن ابا اللہ سے محبت کا طریقہ کیا ہے۔الہٰی بخش نے پوچھا۔کیا اس سے یہ کہتا رہوں کہ مجھے تجھ سے محبت ہے۔

یہ تو انسانوں سے کہنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

کیونکہ وہ کچھ نہیں جانتے لیکن وہ تو سب کچھ جانتا ہے۔۔۔۔۔

اس سے دل کا حال چھپا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

صرف محبت کرتے رہو، وہ جان لے گا۔۔۔

جہاں تک طریقے کا تعلق ہے تو ہم جیسے حقیر بندوں کیلئے اس نے فرمایا ہے کہ مجھ سے محبت کرنی ہے تو میرے بندوں سے محبت کرو۔

یعنی بغیر کسی غرض کے ہر انسان سے صرف اس لئے محبت کرو کہ وہ بھی اللہ کا بندہ ہے۔


عین عشق دے محکمے مَیں ‌وَڑیا

عین عشق دے محکمے مَیں ‌وَڑیا

اَگُوں
عشق نے میری دانائی لُٹ لئی


میں گیا ساں عشق کولوں داد لیون

اَگُوں عشق نے میری رسائی لُٹ لئی


عشق لُٹ ‌دا نبی پیغمبراں نوں

کئی بادشاں دی بادشائی لُٹ لئی


اجے تیرا کی لُٹیا اے بُلھیا ! !

ایس عشق نے خُدا دی خدائی لُٹ لئی
بھلے شاہ

عورت

عورت بظاہر چار حروف کا مجموعہ ہے لیکن




ماں بنے تو محبت و مٹھاس ،


بہن بنے تو ہمدردی ،


بیوی بنے تو خدمت و اطاعت


اور


بیٹی بنے تو راحت و چین کے دریا بہا دیتی ہے ۔


عورت مقدّس ہے اسکے تقدّس کو اپنے اعمال سے پامال مت کیجئے !


عورت کو کبھی ہیچ سمجھنا نہ خدارا


عورت کبھی مریم کبھی حوّا کبھی زہرا




عورت کی عزت کے بارے میں بس اتنا کہوں گا۔


جنگ خیبر کے بعد بارگاہ رسالت میں ایک یہودی لڑکی ننگے سر لائی گئی ۔ حضور ﷺ نے اپنے کندھے سے اپنی چادر مبارک اُتار کر اس یہودی لڑکی کے سر پر ڈال دی ۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ تو یہودی کی بیٹی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹی بیٹی ہوتی ہے خواہ وہ یہودی کی ہو یا مسلمان کی۔ اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نبی ﷺ کے نزدیک عورتوں کا کتنا بڑا مقام ہے جسکا تصور دنیا کا کوئی مذہب کوئی تہذیب نہیں کرسکتی ۔


غم


غم کتنا ہی سنگین ہو نیند سے پہلے تک۔


کائنات کا کوئی ایسا غم نہیں جو انسان برداشت نہ کر سکے۔


اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں بھولنے کی صفت دی ہے ورنہ ایک غم ہمیشہ کیلئے غم بن جاتا۔


ایک انسان کا غم ضروری نہیں کہ دوسرے کا بھی غم ہو۔بلکہ اس کہ برعکس ایک کا غم دوسرے کی خوشی بن سکتا ہے۔


غم خو شی بن کر زندگی میں داخل ہوتا ہے او ر خوشی غم بن کر زندگی سے نکل جاتی ہے اور پھرمحروم زندگی آشنائے لذت وکیف کرا دی جاتی ہے۔



انسان اس زندگی میں نہ کچھ کھوتا ہے نہ پاتا ہے۔وہ تو صرف آتا اور جاتا ہے۔کیا حاصل اور کیا محرومی۔کسی کا چہرہ کسی کی زندگی میں خوشی پیدا کر جاتا ہے اور کسی کو غم دے جاتا ہے ۔یہ سب قدرت کے کھیل ہیں۔


بہتر انسان وہی ہے جو دوسروں کے غم میں شامل ہو کر اسے کم کرے اور دوسروں کی خوشی میں شریک ہو کر ان میں اضافہ کرے۔


کسی انسان کے غم کا اندازہ اس کے ظر ف سے لگایا جا تا ہے۔کم ظرف آدمی دوسروں کو خو ش دیکھ کر ہی غم زدہ ہو جاتا ہے۔وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ لوگ خو ش رہیں۔وہ ان کی خوشیوں کو برباد کرنے پر تل جاتا ہے۔اس کی خو شی یہ ہے کہ لوگ خوشی سے محروم ہو جائیں۔وہ اپنے لئے جنت کو وقف سمجھتا ہے اور دو سروں کو دوزخ سے ڈراتا ہے۔ایک بخیل انسان نہ خوش رہ سکتا ہے نہ خوش کر سکتا ہے۔


  حضرت وا صف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ                                                                               

اللہ کی رحمت

اللہ کو یاد کرنا، اس کو پکارنا، اس کی رحمت کو پکارنا رحمان کو پکارنا ہے رحیم کو پکارنا ہے۔ ستار و غفار کو پکارنا ہے۔ کسی نے قہار کو نہیں پکارا، حالانکہ یہ اللہ ہی کی صفت ہے۔ ہم اس صفت کو پکارتے ہیں جس سے ہمیں واسطہ ہے، رزق دینے والا، معافی دینے والا، شفادینے والا، زندگی بخشنے والا، نیکی کی توفیق دینے والا، مطلب یہ کہ اللہ کی سب صفات ، سب کے پکارنے کے لیے نہیں ہیں۔ اللہ سے عزت مانگو اور عزت حاصل کرنے کے اعمال کا علم مانگو
۔ ہم خیر کے قافلے میں ہیں۔ ہماری عاقبت خیر والوں کے ساتھ ہے۔ اللہ کے محبوبﷺ سے محبت رکھنے والوں کے ساتھ ہے۔
مخالفین دین کی عاقبت ، اور ان کے انجام کے بارے میں اللہ جانے اور اللہ کا پروگرام۔
دوزخ کی آگ کو کیسے انسانوں کا انتظار ہے۔ کم از کم مسلمانوں کا نہیں۔ اللہ کے محبوب
ﷺ کو ماننے والے دوزخ میں نہیں جا سکتے۔

درد

یہ درد زندگی کے اندر اللہ تعالی کا خاص احسان ہے۔ ایسا کوئی انسان نہیں جس میں درد پیدا نہ ہو اور قسمت والے وہ ہیں جن میں درد پہلے پیدا ہو گیا۔ بدقسمت ہیں وہ جن کا درد آخر میں پیدا ہوا۔ درد جو ہے محبت والوں کا کام ہے۔

کسی کو اگر کسی سے خوشی ہو تو وہ خوشی دیر پا نہیں ہو گی اور یہ خوشی چھن جانے سے درد پیدا ہو گا کیونکہ خوشیاں ٹوٹتی رہتی ہیں۔ جس کو درد نہیں ہے اس کو خوشی نہیں ہے، جس کو درد نہیں ہے، اسے محبت بھی نہیں ہے، جس کو درد نہیں ہے اس کو وابستگی بھی نہیں ہے کیونکہ ہر وابستگی نے درد بننا ہے، ہر حاصل نے محرومی سے درد بننا ہے، یہ بن کے رہے گا اور یہ رک نہیں سکتا۔ اس لیے زندگی کے اندر جن لوگوں میں درد نہیں ہے اللہ تعالی انہیں درد عطا فرمائے اور تکلیف نہ عطا فرمائے۔

درد خوبصورت چیز ہے، یہ عطا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے میرے بندے وہ ہیں جو فلیحکو اقلیلا ولیبکواکثیرا یعنی وہ کم ہنسے ہیں اور زیادہ روتے ہیں۔ جتنے صاحبانِ مرتبہ ہیں وہ درد سے گزرے ہیں، راتوں کو جاگنے والے اور رونے والے صاحبانِ درد ہیں۔ وہ اس لیے مرتبے والے ہیں کیونکہ ان کو درد عطا کیا گیا ہے۔ درد جو ہے یہ اللہ کے اپنے قریب والے لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے۔
اس کے لیے دعا مانگی جاتی ہے کہ یا اللہ ! مجھے احساس کی دولت عطا فرما۔ پھر احساس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے کسی پالے ہوئے جانور کا خون بہاتے رہنا چاہیے، صدقہ کرتے رہنا چاہیے، اپنے ہاتھ سے اکھٹی کی ہوئی دولت آپ کے گھر میں بیکار پڑی ہے، اب ناجائز دولت کو جائز طریقے ہی سے تقسیم کرنا شروع کر دو تو درد ملے گا۔ پھر آپ کے اندر ایک احساس پیدا ہو جائے گا۔ کسی کو اپنے آپ پر فوقیت دینا شروع کر دو، اپنا بھی دینا شروع کر دو تو احساس پیدا ہو جائے گا اور درد کی دولت سے آشنائی شروع ہو جائے گی۔ تو آپ سب کو چھوڑ دیں لیکن درد کو نہ چھوڑیں۔

عشق



یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے



کائنات کا سب سے طاقت ور، لازوال اور حسین جزبہ جو شاعری کی بنیاد اور صوفیائ کا مسلک رہا ہے۔



عشق کیا ہے؟



اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔



اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گالیکن اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکے گا



۔شاید اتنا کہنا کافی ہے کہ عشق،



حقیقی ہو تو اپنے صحیح روپ میںنظرآتا ہے۔پھر یہ عشق انسان کو معرفت عطا کرتا ہے



اور اس کے لئے زمان و مکاں کے فاصلے مٹ جاتے ہیں۔

مومن میں اور مسلم میں کیا فرق ہے

اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک سوال نے مجھے

بہت پریشان کیا

سوال یہ تھا کہ مومن میں اور مسلم میں کیا فرق ہے

بہت لوگوں سے پوچھا لیکن کسی کے جوا ب سے مطمعن نہ ہوا

ایک دفعہ ایک گائوں سے گزرا دیکھا کہ ایک بابا گنے کا رس نکال رہا ہے.

نجانے دل میں اک خیال آیا کہ ان سے یہی سوال پوچھوں

تو میں نے سلام کیا اور اجازت لے کر سوال بتایا

انہوں نے کافی سوچ کر جواب دیا کہ

مسلم وہ ہے جو اللہ کو مانتا ہے

اور

مومن وہ ہے جو اللہ کی مانتا ہے


سوچنے کی بات



انسان دوسرے کی دولت دیکھ کر اپنے حالات پر اس قدر شرمندہ کیو ں ہوتا ہے۔

یہ تقسیم تقدیر ہے۔ہمارے لیے ہمارے ماںباپ ہی باعث تکریم ہیں۔

ہماری پہچان ہمارہ اپنا چہرہ ہے۔

ہماری عاقبت ہمارے اپنے دین میں ہے۔

اسی طرح ہماری خوشیاںہمارے ا پنے حالات اور ماحول میںہیں۔

ہم یہ نہیںجان سکتے کے فلاںکی ساتھ ایسا کیوںاور ہمارے ساتھ ویسا کیوںہے۔
حضرت موسیٰ(ع) نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا!
اے رب العالمین آپ نے چھپکلی کو کیوںپیدا فرمایا؟
اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔

عجب بات ہے ابھی ابھی چھپکلی پوچھ رہی تھی، اے رب العالمین آپ نے موسیٰ کو کیوںپیدا کیا؟
بات وہی ہے کہ انسان اپنے نصیب پر خوش و راضی رہے۔