انسان کو اْس با ت پر صبر کر نے کے لیے کہا گیا ہے ‘ جو اسے پسند نہ ہو اور جس کا ہو نا نا گزیر ہو۔
ہر وہ عمل جو بردا شت کر نا پڑے ‘ صبر کے ذیل میں آتا ہے۔ ناقا بل برداشت کو ئی واقعہ نہیں ہو تا ‘ جس کو دیکھنے والے اور پڑھنے والے نا قابل برادشت کہتے ہیں۔ سانحہ ہو یا حا دثہ جس کے ساتھ پیش آرہا ہے وہ تو اس میں سے گزررہا ہے ‘ رو کر یا خا مو ش رہ کر۔
انسا ن کو صبر کی تلقین کی گئی ہے ‘ اس لیے کہ یہ زندگی ہما ری خواہشا ت کے مطابق نہیں ہو تی۔ جہا ں ہما ری پسند کی چیز ہمیں میسر نہ آئے ‘ وہا ں صبر کا م آتا ہے۔ جہا ں ہمیں نا پسند واقعا ت اور افرا د کے سا تھ گزر کر نا پڑے ‘ وہاں بھی صبر کا م آ تا ہے
صبر کا نا م آتے ہی اذیت کا تصو ر آتا ہے۔ نا پسند ید ہ زند گی قبو ل کر نے کی اذیت یا پسند ید ہ زند گی تر ک کر نے کی اذیت۔ یہ اذیت احساس کی لطا فت کی نسبت سے بڑھتی اور کم ہو رہتی ہے۔
کو ئی زند گی ایسی نہیں جو اپنی آرزو اور اپنے حا صل میں مکمل ہو ‘ برا بر ہو کبھی آرزو بڑھ جا تی ہے اور کبھی حاصل کم رہ جا تا ہے۔ صبر کا خیا ل ہی اس با ت کی دلیل ہے کہ انسان جو چا ہتا ہے وہ اسے ملا نہیں۔
انسان محنت کر تا ہے ‘ کو شش کر تا ہے ‘ مجا ہد ہ کر تا ہے ‘ ریا ضت اور عبا د ت کر تا ہے کہ زند گی اطمینا ن اور آرام سے گزر ے اور ما بعد حیا ت کے بھی خطرا ت نہ رہیں ‘ لیکن زند گی عجب ہے۔ اس میں جب کو ئی مقا م حاصل ہو تا ہے ‘ پسند ید ہ مقا م ‘ تب بھی ہمیں احساس ہو تا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ رہ گیا ہے یا کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غیر ضرور ی اور غیر منا سب شئے شا مل ہوگئی ہے ‘ اْس زند گی میں بس ایسی صو ر ت میں انسان بے بس ہو تا ہے۔ صبر کے سوا کو ئی چا رہ نہیں ہو تا ہے۔
انسا ن شا دی کر تا ہے۔ شا دی کا معنی خو شی ہے ‘ لیکن کچھ ہی عر صہ بعد انسان محسو س کر تا ہے کہ شا د ی کا عمل ضرا ئض اور ذمہ دا ریو ں کی داستا ن ہے۔ حقو ق کا قصہ ہے۔ صر ف خوشی کی بات نہیں۔ اس میں رنج اور رنجشیں بھی شا مل ہیں۔ دو انسان ‘زو جین ‘ مل کر سفر کر تے ہیں۔ ایک دوسر ے کے لیے با عث مسر ت ہو نے کے وعدے اور دعو ے لیکر ہم سفر بنتے ہیں اورکچھ ہی عر صہ بعد ایک دو سر ے کو برداشت کر نے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ خوش رہنے کا تصو ر ختم ہو جا تا ہے۔ صبر کر پڑتا ہے۔ اب یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اولا د ہو نے کے بعد انسان کو محسو س ہو تا ہے کہ وہ ایک خو بصو ر ت ر سی سے جکڑا گیا ہے۔ اسکی آزادی اور آزادخیا لی ختم ہو گئی ہے۔ اس پر عجیب و غر یب فرا ئض عا ئد ہو گئے ہیں۔ محبت کے نا م پر مصیبت میں گر فتا ر ہو گیا ہے۔ لیکن اب صر ف صبر ہے۔ یہی تلقین ہے کہ ہو جا نے واے واقعا ت پر افسوس نہ کر و ‘ صبرکر و۔
صبر کا مقا م اس وقت آتا ہے ‘ جب انسان کو یہ یقین آجائے کہ اس کی زند گی میں اس کے عمل اور اس کے ارادے کے ساتھ ساتھ کسی اور کا عمل ‘کسی اور کا ارادہ بھی شامل ہے۔ اپنے حا ل میں دوسر ے کا حا ل شا مل دیکھ کر انسان گھراتا ہے اور جب اسے ایک اور حقیقت کا علم ہو تا ہے کہ اس ارادو ں اور اور عمل میں اسکے خا لق و ما لک کا امر شامل ہے اور کبھی کبھی یہ امر ایک مشکل مقا م سے گزرنے کا امر ہے‘ تو انسان سوچتا ہے کہ اگر با ت اپنی ذات تک ہو تو بد ل بھی سکتی ہے ‘ لیکن اگر فیصلے امر مطلق کے تا بع ہیں ‘تو ٹل نہیں سکتے۔ یہا ں سے انسان اپنی بے بسی کی پہچا ن شرو ع کر تا ہے۔ بے بسی کے آغا ز سے صبر کا آغا ز ہو تا ہے۔
خو شی میں غم کا دخل ‘ صحت میں بیما ری کا آجا نا ‘ بنے ہو ئے پر و گرا م کا معطل ہو نا ‘ کسی اور انسا ن کے سی عمل سے ہما ری پْر سکو ن زند گی میں پر یشا نی کا امکا ن پید ا ہو نا ‘ سب صبر کے مقا ما ت ہیں۔
تکلیف ہما ر ے اعما ل سے آ ئے یا اس کے حکم سے ‘ مقا م صبر ہے ‘ کیو نکہ تکلیف ایک اذیت نا ک کیفیت کا نا م ہے۔ تکلیف جسم کی ہو ‘ بیما ری کی شکل میںیا رو ح کی تکلیف ‘ احساس مصیبت یا احساس تنہا ئی یا احساس محرو می کی شکل میں مقا م صبر ہے۔ انسان جس حا ہت سے نکلنا چا ہے اور نکل نہ سکے ‘ وہا ں صبر کرتا ہے۔ جہاں انسان کا علم ساتھ نہ دے ‘ ا س کی عقل ساتھ نہ دے اوراس کا عمل اس کی مدد نہ کر سکے ‘وہا ں مجبو ری کا حساس اسے صبر کے دامن کا آسراتلاش کر نے کی دعوت دیتا ہے۔
صبر کا تصور دراصل مجبوری کا احساس نہیں ہے۔ صبر کے نام کے ساتھ ہی ایک اور ذات کا تصور واضح طور پر سامنے آتا ہے کی ہم اپنی زند گی میں سب کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی زند گی کے مالک ہو کر بھی مکمل ما لک نہیں۔ ہم مختار ہو کر بھی مختار نہیں۔ ہم قدرت رکھنے کے با وجود قادر نہیں۔ ہم اور ہما ری زند گی ہزارہا اور زند گیوں کے دائرہ اثر میں ہیں۔ہم اور ہما ری ز ند گی ایک اور ذات کے ارادے کے تا بع ہیں اور وہ ذات مطلق ہے۔ اس کا امر غا لب ہے۔ وہ جو چا ہتا ہے کر تا ہے۔ ہما رے ساتھ ہما ری زند گی کے ساتھ ‘ ہما ظاہر کے ساتھ ‘ ہما رے باطن کے ساتھ ‘ ہما ری تنہا ئی کے ساتھ ‘ہما رے گردوپیش کے ساتھ ‘ ہما رے وا لدین کے ساتھ ‘ ہما تی اولاد کے ساتھ ‘ ہما رے ہرہر خیال کے ساتھ۔ اور وہ ذات چا ہے تو ہما رے مر تبے عذاب بنا دے ‘ چا ہے تو ہما ری غر یبی اور غر یب الوطنی کو سرفرازیاں عطا کر دے۔ وہ ذات یتیموں کو پیغمبر بنا دے اور چا ہے تو مسکینو ں کو مملکت عطا کر دے۔ اس ذات کا امر اور عمل اٹل ہے۔ اس کے فیصلے آخری ہیں۔ اس کے حکم کے تا بع ہیں۔ انسان کی خو شیاں ‘ انسان کے غم ‘ انسان کی زند گی ‘ انسان کی موت ‘ انسان کی محبت ‘ انسان کے خوف ‘ انسان کے جذبات واحساسات۔ وہی ذات ہے ‘ جو انسان کو بار بار حکم فر ما تی ہے کہ صبر کرو۔ یعنی اپنی زند گی میں میر ے حکم سے پیدا ہو نے وا لے حال کو سمجھنے سے پہلے تسلیم کر لو۔ جو سمجھ میں نہ آسکے ‘ اس پر صبر کر و اور جو سمجھ مٰن آئے ‘ اس پر مزید غور کرو۔ صبر کی منزل ایک مشکل منزل ہے۔ فقر میں ایک بلند مقام ہے صبر کا۔
وہ صبر کر نے وا لو ں کے سا تھ ہے۔ عجب بات ہے کہوہ تکلیف دور نہیں کر تا اور برداشت کر نے وا لوں کے ساتھ رہتا ہے اور تکلیف بھیجنے وا لا خودہی۔ بس یہی انسانی عظمت کا راز ہے۔ انسان کی تسلیم ورضا کا روشن باب ‘ انسان کی انسا نیت کا ارفع مقام کہ وہ سمجھ لے کہ تکلیف دینے والا ہی را حت جاں ہے۔یہ زند گی اس کی دی ہو ئی ہے اسی کے حکم کی منتظر ہے۔ وجود اس کا بنایا ہوا ہے اسی کے امر کے تا بع ہے۔ وہ ستم کر ے تو ستم ہی کرم ہے۔ وہ تکلیف بھیجے تو یہی را حت ہے۔ وہ ذات ہما رے جسم کو اذیت سے گذارنے ‘تو بھی یہ اس کا احساس ہے۔
صبر کر نے وا لے اس مقام سے آشنا کر وا دیئے جا تے ہیں کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی تو فیق دے رہا ہے۔ اور اس مقام پر ‘‘صبر‘‘ ہی‘‘ شکر‘ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مقر ب اذیت سے گزرتے ہی سے تو گزرتے ہیں ‘ لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گذرے۔ وہ شکر کرتے ہو ئے وا دی اذیت سے گذر جا تے ہیں۔
دنیا دار جس مقام پر بیزار ہو تا ہے ‘مومن اس مقام پر صبر کر تا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے ‘ مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے ‘ کیو نکہ یہی مقام وصال حق کا مقام ہے۔ تمام واصلین حق صبر کی وادیوں سے بہ تسلیم ورضا گزر کر سجدہ شکر تک پہنچے۔ یہی انسان کی رفعت ہے۔ یہی شان عبودیت ہے ‘ کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو ‘ دل یو دوں سے زخمی ہو اور سر نیاز سجدہ میں ہو کہ‘‘ اے خالق !مجھے صبر استقا مت کی منز لیں عطا کر نے وا لے ! مجھے تسلیم و رضا کے معراج عطا کر نے والے ! تیرا شکر ہے ‘ لاکھ بار شکر ہے کہ تو نے مجھے چن لیا ‘ اپنا اورصرف اپنا ‘ تیری طرف سے ہر آنے والے حال پر ہم را ضی ہیں۔ ہم جا نتے ہیں کہ ہم اور ہما ری زند گی بے مصرف اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تو ہے۔ جس نے ہمیں تاج تسلیم ورضا پہنا کر اہل دنیا کے لیے ہما رے صبر کا ذکر ہی با عث تسکین روح و دل بنایا۔‘‘
بیکسی کی داستان بننے والے امام عالی مقام بیکسوں کے لیے چارہ ساز بن کر آئے۔یہ داستان اہل علم کے لیے نہیں ‘ یہ اہل نظر کا مقام ہے ‘ اہل شکر کے لیے۔اْن کے لیے جو ہر حال پر را ضی رہتے ہیں۔ جن لو گوں پر اس کا کرم ہوتا ہے ‘ ان کی آنکھیں تر رہتی ہیں۔ ان کے دل گداز رہتے ہیں ´ ان کی پیشا نیا ں سجدوں کے لیے بیتاب ر ہتی ہیں۔ ان کے ہاں تکلیف رہتی ہے ‘ لیکن ان کی زبان پر کلمات شکر رہتے ہیں۔ مقامات صبر کو مقا مات شکر بنا نا خو ش نصیبوں کے کام ہیں۔ ایسی خوش نصیبی زمین والے ان کی تکلیف پر اظہار غم کر یں اور آسمان وا لے ان پر سلام بھیجیں۔صبر وا لواں کی شان نرالی ہے۔ ان کا ایمان قوی ہے۔ ان کے درجات بلند ہیں۔ ان کے جسم پر پیوند کے لباس ہیں اور ان کے در پر جبرئیل جیسے غلام ہیں۔ اللہ صبر کرنے وا لو ں کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ سے ‘ ہمیشہ کے لیے۔
ہر وہ عمل جو بردا شت کر نا پڑے ‘ صبر کے ذیل میں آتا ہے۔ ناقا بل برداشت کو ئی واقعہ نہیں ہو تا ‘ جس کو دیکھنے والے اور پڑھنے والے نا قابل برادشت کہتے ہیں۔ سانحہ ہو یا حا دثہ جس کے ساتھ پیش آرہا ہے وہ تو اس میں سے گزررہا ہے ‘ رو کر یا خا مو ش رہ کر۔
انسا ن کو صبر کی تلقین کی گئی ہے ‘ اس لیے کہ یہ زندگی ہما ری خواہشا ت کے مطابق نہیں ہو تی۔ جہا ں ہما ری پسند کی چیز ہمیں میسر نہ آئے ‘ وہا ں صبر کا م آتا ہے۔ جہا ں ہمیں نا پسند واقعا ت اور افرا د کے سا تھ گزر کر نا پڑے ‘ وہاں بھی صبر کا م آ تا ہے
صبر کا نا م آتے ہی اذیت کا تصو ر آتا ہے۔ نا پسند ید ہ زند گی قبو ل کر نے کی اذیت یا پسند ید ہ زند گی تر ک کر نے کی اذیت۔ یہ اذیت احساس کی لطا فت کی نسبت سے بڑھتی اور کم ہو رہتی ہے۔
کو ئی زند گی ایسی نہیں جو اپنی آرزو اور اپنے حا صل میں مکمل ہو ‘ برا بر ہو کبھی آرزو بڑھ جا تی ہے اور کبھی حاصل کم رہ جا تا ہے۔ صبر کا خیا ل ہی اس با ت کی دلیل ہے کہ انسان جو چا ہتا ہے وہ اسے ملا نہیں۔
انسان محنت کر تا ہے ‘ کو شش کر تا ہے ‘ مجا ہد ہ کر تا ہے ‘ ریا ضت اور عبا د ت کر تا ہے کہ زند گی اطمینا ن اور آرام سے گزر ے اور ما بعد حیا ت کے بھی خطرا ت نہ رہیں ‘ لیکن زند گی عجب ہے۔ اس میں جب کو ئی مقا م حاصل ہو تا ہے ‘ پسند ید ہ مقا م ‘ تب بھی ہمیں احساس ہو تا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ رہ گیا ہے یا کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غیر ضرور ی اور غیر منا سب شئے شا مل ہوگئی ہے ‘ اْس زند گی میں بس ایسی صو ر ت میں انسان بے بس ہو تا ہے۔ صبر کے سوا کو ئی چا رہ نہیں ہو تا ہے۔
انسا ن شا دی کر تا ہے۔ شا دی کا معنی خو شی ہے ‘ لیکن کچھ ہی عر صہ بعد انسان محسو س کر تا ہے کہ شا د ی کا عمل ضرا ئض اور ذمہ دا ریو ں کی داستا ن ہے۔ حقو ق کا قصہ ہے۔ صر ف خوشی کی بات نہیں۔ اس میں رنج اور رنجشیں بھی شا مل ہیں۔ دو انسان ‘زو جین ‘ مل کر سفر کر تے ہیں۔ ایک دوسر ے کے لیے با عث مسر ت ہو نے کے وعدے اور دعو ے لیکر ہم سفر بنتے ہیں اورکچھ ہی عر صہ بعد ایک دو سر ے کو برداشت کر نے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ خوش رہنے کا تصو ر ختم ہو جا تا ہے۔ صبر کر پڑتا ہے۔ اب یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اولا د ہو نے کے بعد انسان کو محسو س ہو تا ہے کہ وہ ایک خو بصو ر ت ر سی سے جکڑا گیا ہے۔ اسکی آزادی اور آزادخیا لی ختم ہو گئی ہے۔ اس پر عجیب و غر یب فرا ئض عا ئد ہو گئے ہیں۔ محبت کے نا م پر مصیبت میں گر فتا ر ہو گیا ہے۔ لیکن اب صر ف صبر ہے۔ یہی تلقین ہے کہ ہو جا نے واے واقعا ت پر افسوس نہ کر و ‘ صبرکر و۔
صبر کا مقا م اس وقت آتا ہے ‘ جب انسان کو یہ یقین آجائے کہ اس کی زند گی میں اس کے عمل اور اس کے ارادے کے ساتھ ساتھ کسی اور کا عمل ‘کسی اور کا ارادہ بھی شامل ہے۔ اپنے حا ل میں دوسر ے کا حا ل شا مل دیکھ کر انسان گھراتا ہے اور جب اسے ایک اور حقیقت کا علم ہو تا ہے کہ اس ارادو ں اور اور عمل میں اسکے خا لق و ما لک کا امر شامل ہے اور کبھی کبھی یہ امر ایک مشکل مقا م سے گزرنے کا امر ہے‘ تو انسان سوچتا ہے کہ اگر با ت اپنی ذات تک ہو تو بد ل بھی سکتی ہے ‘ لیکن اگر فیصلے امر مطلق کے تا بع ہیں ‘تو ٹل نہیں سکتے۔ یہا ں سے انسان اپنی بے بسی کی پہچا ن شرو ع کر تا ہے۔ بے بسی کے آغا ز سے صبر کا آغا ز ہو تا ہے۔
خو شی میں غم کا دخل ‘ صحت میں بیما ری کا آجا نا ‘ بنے ہو ئے پر و گرا م کا معطل ہو نا ‘ کسی اور انسا ن کے سی عمل سے ہما ری پْر سکو ن زند گی میں پر یشا نی کا امکا ن پید ا ہو نا ‘ سب صبر کے مقا ما ت ہیں۔
تکلیف ہما ر ے اعما ل سے آ ئے یا اس کے حکم سے ‘ مقا م صبر ہے ‘ کیو نکہ تکلیف ایک اذیت نا ک کیفیت کا نا م ہے۔ تکلیف جسم کی ہو ‘ بیما ری کی شکل میںیا رو ح کی تکلیف ‘ احساس مصیبت یا احساس تنہا ئی یا احساس محرو می کی شکل میں مقا م صبر ہے۔ انسان جس حا ہت سے نکلنا چا ہے اور نکل نہ سکے ‘ وہا ں صبر کرتا ہے۔ جہاں انسان کا علم ساتھ نہ دے ‘ ا س کی عقل ساتھ نہ دے اوراس کا عمل اس کی مدد نہ کر سکے ‘وہا ں مجبو ری کا حساس اسے صبر کے دامن کا آسراتلاش کر نے کی دعوت دیتا ہے۔
صبر کا تصور دراصل مجبوری کا احساس نہیں ہے۔ صبر کے نام کے ساتھ ہی ایک اور ذات کا تصور واضح طور پر سامنے آتا ہے کی ہم اپنی زند گی میں سب کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی زند گی کے مالک ہو کر بھی مکمل ما لک نہیں۔ ہم مختار ہو کر بھی مختار نہیں۔ ہم قدرت رکھنے کے با وجود قادر نہیں۔ ہم اور ہما ری زند گی ہزارہا اور زند گیوں کے دائرہ اثر میں ہیں۔ہم اور ہما ری ز ند گی ایک اور ذات کے ارادے کے تا بع ہیں اور وہ ذات مطلق ہے۔ اس کا امر غا لب ہے۔ وہ جو چا ہتا ہے کر تا ہے۔ ہما رے ساتھ ہما ری زند گی کے ساتھ ‘ ہما ظاہر کے ساتھ ‘ ہما رے باطن کے ساتھ ‘ ہما ری تنہا ئی کے ساتھ ‘ہما رے گردوپیش کے ساتھ ‘ ہما رے وا لدین کے ساتھ ‘ ہما تی اولاد کے ساتھ ‘ ہما رے ہرہر خیال کے ساتھ۔ اور وہ ذات چا ہے تو ہما رے مر تبے عذاب بنا دے ‘ چا ہے تو ہما ری غر یبی اور غر یب الوطنی کو سرفرازیاں عطا کر دے۔ وہ ذات یتیموں کو پیغمبر بنا دے اور چا ہے تو مسکینو ں کو مملکت عطا کر دے۔ اس ذات کا امر اور عمل اٹل ہے۔ اس کے فیصلے آخری ہیں۔ اس کے حکم کے تا بع ہیں۔ انسان کی خو شیاں ‘ انسان کے غم ‘ انسان کی زند گی ‘ انسان کی موت ‘ انسان کی محبت ‘ انسان کے خوف ‘ انسان کے جذبات واحساسات۔ وہی ذات ہے ‘ جو انسان کو بار بار حکم فر ما تی ہے کہ صبر کرو۔ یعنی اپنی زند گی میں میر ے حکم سے پیدا ہو نے وا لے حال کو سمجھنے سے پہلے تسلیم کر لو۔ جو سمجھ میں نہ آسکے ‘ اس پر صبر کر و اور جو سمجھ مٰن آئے ‘ اس پر مزید غور کرو۔ صبر کی منزل ایک مشکل منزل ہے۔ فقر میں ایک بلند مقام ہے صبر کا۔
وہ صبر کر نے وا لو ں کے سا تھ ہے۔ عجب بات ہے کہوہ تکلیف دور نہیں کر تا اور برداشت کر نے وا لوں کے ساتھ رہتا ہے اور تکلیف بھیجنے وا لا خودہی۔ بس یہی انسانی عظمت کا راز ہے۔ انسان کی تسلیم ورضا کا روشن باب ‘ انسان کی انسا نیت کا ارفع مقام کہ وہ سمجھ لے کہ تکلیف دینے والا ہی را حت جاں ہے۔یہ زند گی اس کی دی ہو ئی ہے اسی کے حکم کی منتظر ہے۔ وجود اس کا بنایا ہوا ہے اسی کے امر کے تا بع ہے۔ وہ ستم کر ے تو ستم ہی کرم ہے۔ وہ تکلیف بھیجے تو یہی را حت ہے۔ وہ ذات ہما رے جسم کو اذیت سے گذارنے ‘تو بھی یہ اس کا احساس ہے۔
صبر کر نے وا لے اس مقام سے آشنا کر وا دیئے جا تے ہیں کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی تو فیق دے رہا ہے۔ اور اس مقام پر ‘‘صبر‘‘ ہی‘‘ شکر‘ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مقر ب اذیت سے گزرتے ہی سے تو گزرتے ہیں ‘ لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گذرے۔ وہ شکر کرتے ہو ئے وا دی اذیت سے گذر جا تے ہیں۔
دنیا دار جس مقام پر بیزار ہو تا ہے ‘مومن اس مقام پر صبر کر تا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے ‘ مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے ‘ کیو نکہ یہی مقام وصال حق کا مقام ہے۔ تمام واصلین حق صبر کی وادیوں سے بہ تسلیم ورضا گزر کر سجدہ شکر تک پہنچے۔ یہی انسان کی رفعت ہے۔ یہی شان عبودیت ہے ‘ کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو ‘ دل یو دوں سے زخمی ہو اور سر نیاز سجدہ میں ہو کہ‘‘ اے خالق !مجھے صبر استقا مت کی منز لیں عطا کر نے وا لے ! مجھے تسلیم و رضا کے معراج عطا کر نے والے ! تیرا شکر ہے ‘ لاکھ بار شکر ہے کہ تو نے مجھے چن لیا ‘ اپنا اورصرف اپنا ‘ تیری طرف سے ہر آنے والے حال پر ہم را ضی ہیں۔ ہم جا نتے ہیں کہ ہم اور ہما ری زند گی بے مصرف اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تو ہے۔ جس نے ہمیں تاج تسلیم ورضا پہنا کر اہل دنیا کے لیے ہما رے صبر کا ذکر ہی با عث تسکین روح و دل بنایا۔‘‘
بیکسی کی داستان بننے والے امام عالی مقام بیکسوں کے لیے چارہ ساز بن کر آئے۔یہ داستان اہل علم کے لیے نہیں ‘ یہ اہل نظر کا مقام ہے ‘ اہل شکر کے لیے۔اْن کے لیے جو ہر حال پر را ضی رہتے ہیں۔ جن لو گوں پر اس کا کرم ہوتا ہے ‘ ان کی آنکھیں تر رہتی ہیں۔ ان کے دل گداز رہتے ہیں ´ ان کی پیشا نیا ں سجدوں کے لیے بیتاب ر ہتی ہیں۔ ان کے ہاں تکلیف رہتی ہے ‘ لیکن ان کی زبان پر کلمات شکر رہتے ہیں۔ مقامات صبر کو مقا مات شکر بنا نا خو ش نصیبوں کے کام ہیں۔ ایسی خوش نصیبی زمین والے ان کی تکلیف پر اظہار غم کر یں اور آسمان وا لے ان پر سلام بھیجیں۔صبر وا لواں کی شان نرالی ہے۔ ان کا ایمان قوی ہے۔ ان کے درجات بلند ہیں۔ ان کے جسم پر پیوند کے لباس ہیں اور ان کے در پر جبرئیل جیسے غلام ہیں۔ اللہ صبر کرنے وا لو ں کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ سے ‘ ہمیشہ کے لیے۔
0 comments:
Post a Comment