میں نے دیکھا نہیں خدا کو تو کیا غم ہے

میں نے دیکھا نہیں خدا کو تو کیا غم ہے
میری ماں کا دیدار بھی بھلاکچھ کم ہے

رب نے بخشی ہے وسعتیں کہکشاؤں کی سی

خطائیں مری چھپانے کو وہ آنچل کہاں کم ہے

مجھے بھلاحوادس کا کیونکر ہو خوف لاحق

دیکھا ہے اکثر اسکی دعاؤں میں بڑا دم ہے

جو بکھرنے لگوں تو جی اٹھوں یہ سوچ کر

مرے لۓ بھی دنیا میں اک حسیں گوشہ نرم ہے

گر شریعت نے باندھ نہ رکھی ہوتی میرے زباں تو
غرور میں کہتا کہ یہ ہے میرا خدا یہ میراصنم ہے

بن کہ رہتی ہے وہ اک پرسکوں چھاؤں کی مانند

پھر بھی جانے کیوں رہتی اسکی آنکھ پر نم ہے

کسی بات کا کبھی نہ گِلا کیا اس نے بڑوں سے

آخر اسہی کو رکھنا انکی بڑائ کا بھرم ہے


کیا خبر وہ کبھی پیٹ بھر کھاتی بھی ہے یا نہیں

پر مجھ سے کبھی نہ کہا کہ بیٹا آج کھانا کم ہے

جانے کبھی رات کو بھی وہ سکوں پاتی ہے یا نہیں

پر بچھاتی ہمیشہ میرےلۓ وہ بستر نرم ہے


خوشیاں اپنی ساری کردیں دوسروں پر نثار

بدلے میں لے لیا ان سب کا ہر اک غم ہے

کبھی اسے کہہ پاؤں گا کہ کتنا چاہتا ہوں اسے میں

یہ مری خصلت کم گوئ بھی اس پر اک ستم ہے

لکھنے کی سکت باقی نہیں ورنہ لکھتا عمر بھر

ماں! یہ قلم بھی تیرے احترام میں آج خم ہے

<<<<<>>>>>


0 comments:

Post a Comment