حضرت بابا بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ

بابا فرید اپنی نفسیاتی کیفیت کی مثال دیتے ہوئے ظلم و ستم کی دہکتی آگ کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں۔

فریدا میں جاتا دکھ کوں دکھ سبھا ایہ جگ
اچے چڑھ کے دیکھیا تاں گھر گھر ایہااگ

سلیس زبان میں ترجمہ تو اس قدر ہے اے فریدا میرا خیال تھا دکھوں نے صرف مجھے ہی گھیر رکھا ہے۔لیکن جب میں نے اپنی ذات کے حصار سے بلند ہو کر دیکھا تو ساری خلق خدا کو بلکہ ہر گھر میںیہی آگ دہکتی نظر آئی۔
اس شعر میں اونچا چڑھنا یا بلند ہو کر دیکھنا غور طلب ہے۔جب تک انسان اپنی ذات سے بائر نکل کر یا بلند ہو کرنہیں دیکھتااسے دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں ہو سکتاکیونکہ جب تک وہ اپنی ذات کے دائرے میںمقید رہتا ہے اسے اپنے رنج والم زیادہ دکھ دینے والے محسوس ہوتے ہیں۔

A small mole on your neck is more than forty thousand earthquakes in china.

انسان کی اپنی گردن پر معمولی پھنسی وغیرہ:دور دراز کے مقام پر ہزاروں زلزلوں سے اہم ہوتی ہے۔گویا دوسروں کی تکلیف کے کما حقہ ادراک کیلئے اپنی ذات سے بلند ہو کر جائزہ لینا بے حد ضروری ہے۔اور اگر دوسروںکی خاطر انسان کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوتو پہلے خرابی کا جاننا ضروری ہوتا ہے جس کیلئے بلند نگاہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک بار بلندی پر کھڑے ہو کر خرابی کا اندازہ ہو جائے توپھر با ہمت لوگ انسانیت کے دکھوںکو دور کرنے کیلئے میدان میں ڈٹ جاتے ہیں ۔جن کا مسلک احترام انسانیت ہو وہ کسی رکاوٹ کو خاطر میں لائے بغیر خدمت سر انجام دیتے ہیں۔
از کتاب؛  فرید نانک بلہا وارث
مصنف؛  سید افضل حیدر  

0 comments:

Post a Comment