خوف

خوف پیدا ہونے کے لیے خطرے کا ہونا ضروری نہیں۔خوف انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے، حالات سے بھی اور خیالات سے بھی۔ جب انسان اپنی کسی خواہش کا جواز اپنے ضمیر میں نہیں پاتا ، تو خوف زدہ ہونا لازمی ہے۔خوف ناروا خواہش کا اولین سگنل ہے۔  ہر انسان کو کسی نہ کسی سے محبت ضرور ہوتی ہے اور اگر وہ محبوب انسان اپنی ہی ذات گرامی ہو، تو خوف سے بچنا محال ہے۔ اپنے آپ سے محبت دوسرے انسانوں سے تصدیق کا تقاضا کرتی ہے اور دوسرے انسان اس انسان سے محبت نہیں کر سکتے، جو اپنے آپ اور صرف اپنے آپ سے محبت کرتا ہے۔اس لیے دوسروں کے عدم تعاون کا خیال ہی خوف پیدا کرتا ہے۔خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ مجھے جاننے والے مجھے ماننے والے نہیں ہیں ۔ آخر کیوں نہیں ہیں؟   کسی انسان کو انسانوں میں محبوب بننے کے لیے ان سے محبت کرنا پڑتی ہے اور دوسروں سے محبت کرنے کا عمل اپنے آپ سے غافل ہونے کا عمل ہے۔اور یہ عمل اپنی ذات سے محبت کرنے کے عمل کے خلاف ہے، اس لیے محبت ِخویش ، خوفِ خلق سے مبرّا نہیں ہوتی۔خوف ایک اندازِ نظر ہے۔ ایک نقطئہ نگاہ ہے۔ ایک واہمہ ہے ، جو حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔ہر حادثہ ضروری نہیں کہ رونما ہونے سے پہلے خوف پیدا کرے اور ہر خوف ضروری نہیں کہ کسی حادثے پر ہی ختم ہو۔ حادثہ اطلاع کے بغیر آتا ہے۔خوف بذات خود ایک حادثہ ہے، جو آتا ہے اطلاع کے بغیر اور انسان کے دل میں بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ”گھس بیٹھیا“کہاں سے آتا ہے۔ کیسے آتا ہے۔ کیوں آتا ہے۔ کیا معلوم!    بدنیّتی کی فوری سزا خوف ہے۔ نیت اعمال سے مخفی ہوتی ہے، اس لیے خوف اعمال کے نتیجوں سے بے نیاز ہوتا ہے۔لہٰذا ایسا عمل جس کی نیت بری ہو اور نتیجہ اچھا ہو ، خوف پیدا کرتا رہے گا۔ وہ عمل جس کی نیت اچھی ہو ، خواہ برا ہو ، خوف سے آزاد رہتا ہے۔ خوف در اصل بری نیت کی تخلیق ہے۔ نیت کی اصلاح کے بغیر یہ سزا ختم نہیں ہوتی۔  اللہ کے دوستوں اور خاص بندوں کی یہ پہچان بتائی گئی ہے کہ ان کے ہاں خوف اور حُزن نہیں ہوتا۔ اللہ کے دوست نیت کی پاکیزگی کے بغیر کوئی عمل نہیں کرتے۔ان کے اعمال اچھی نیّات کی وجہ سے درست ہیں۔   نتیجے سے بے نیازی ہی خوف سے بے نیازی ہے۔اندیشہ ہماری خواہش کے برعکس کسی نتیجے کا امکان ہے۔ جب خواہش خوش نیت ہو تو کسی بھی قسم کا نتیجہ خوف پیدا نہیں کر سکتا۔جب خواہش بد نیت ہو تو کسی بھی قسم کا نتیجہ خوف سے نہیں بچا سکتا۔  اللہ کے دوستوں کو ملال نہیںہوتا۔کسی شے کے کم ہونے یا گم ہونے کی صورت میں ملال پیدا ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنے کسی حاصل پر ہمیشہ قابض رہنے کی خواہش نکال دے تو ملال پیدا نہیں ہو گا۔مثلاً اپنے حسن ، اپنی جوانی کو ہمیشہ قائم رکھنے کی لا حاصل خواہش نہ کی جائے، تو کبھی ملال نہیں ہو گا۔خوف اور حُزن ‘ حاصل کو مستحکم بنانے کی خواہش اور کوشش کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔  زندگی کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی خواہش موت کے خوف سے نہیں بچ سکتی۔زندگی صرف ماضی اور مستقبل کے سنگم کا نام ہے۔ماضی اور مستقبل دونوں ہمارے اختیار میں نہیں، حال پر اختیار برقرار رکھنے کی سعی¿ِ ناکام خوف کے سوا کچھ پیدا نہیں کر سکتی۔خود کو محفوظ بنانے کی خواہش غیر محفوظ ہونے کا اعلان ہی تو ہے۔ایسا کیوں ہے؟ شاید زندگی اپنے اندر گرتی رہتی ہے، ریت کی دیوار کی طرح۔ اسے کسی آندھی یا طوفان کے تکلف کی ضرورت نہیں۔انسان کا وجود اور ارادہ اندر سے مفلوج ہوتے ہیں۔باہر کے موسم تو ہمیشہ وہی رہتے ہیں۔بہاریں اور خزائیں آتی جاتی رہتی ہیں۔لیکن ہم اپنے اندر بے نام اندیشے پالتے رہنے کی وجہ سے یکسر بدل جاتے ہیں،اور پھر ہمیں نہ بہار راس آتی ہے اور نہ خزاں۔انسان اندر سے ٹوٹ جائے تو تعمیر حیات کی کتابیں مدد نہیں کر سکتیں۔   خوف اس انسان کو اس انسان سے آتا ہے ، جس کو وہ خوف زدہ کرتا ہے۔ ہمارے رتبے اور مرتبے ، ان لوگوں میں خوف پیدا کرتے ہیں ، جو ان مراتب کے خواہاں ہوں۔ہمارے خوف کی وجہ سے وہ دل ہی دل میں ہمیں نا پسند کرتے ہیں اور پھر یہی ناپسندیدگی ان کے چہروں پر سوالات لکھتی ہے اور ان سوالات کو پڑھ کر ہم خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔امیر آدمی جب غریبوں کو ناراض دیکھتا ہے تو اسے ان سے خوف محسوس ہوتا ہے کہ یہ گونگا خطرہ اگر زبان کھول دے تو جانے کیا ہو جائے۔ہر ظالم کو مظلوم سے خوف محسوس ہوتا رہتا ہے۔ڈرنے والا ہی ڈرانے والا بن جاتا ہے۔ہم جس دشمن سے ڈرتے ہیں وہ بھی تو ہم سے ڈرتا ہے۔بارڈر کے پاس ہمارا خوف پرورش پاتا رہتا ہے۔جس نے ہمارا سکون برباد کیا ، اس کو کب چین نصیب ہوسکتا ہے۔یہ قانون فطرت ہے۔اندھیرا اجالا ایک دوسرے سے ڈرتے ہی رہتے ہیں۔ پیسے گننے اور جمع کرنے والا غریب ہو جانے کے ڈر سے سو نہیں سکتا۔باغی لوگ حکومت سے ڈرتے ہیں۔ حکومتیں بغاوتوں سے ڈرتی ہیں اور ڈرنا بھی چاہیے۔  طلبہ اساتذہ سے ڈرتے ہیں اور اساتذہ طلبہ سے ڈرتے ہیں۔ڈرانے والا بہرحال ڈرتا ہے۔خوف ایک حد تک تو خیر جائز ہے۔ خوف احتیاط پیدا کرتا ہے اور احتیاط زندگی کے تیز سفر میں ایک موزوں اور مناسب عمل ہے۔لیکن ایک حد سے زیادہ خوف ہو تو انسان کا سارا تشخص ، اس کی ساری سائیکی psyche،اس کا باطنی وجود ، سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔خوف خون کی رنگت اور ہڈیوں کا گودا ختم کر دیتا ہے۔  خوف زدہ انسان پتوں کی کھڑکھڑاہٹ سے ڈرتا ہے۔وہ آنے والوں سے ڈرتا ہے۔وہ ہر ایک سے ڈرتا ہے۔اپنے ماضی سے ڈرتا ہے، اپنے حال سے ڈرتا ہے۔ اپنے مستقبل سے ڈرتا ہے ، بلکہ اپنے پرائے یہاں تک کہ اپنے ہی سائے سے ڈرتا ہے۔ خوف اگر ایک بار دل میں بیٹھ جائے تو پھر وجہ کے بغیر ہی خوف پیدا ہوتا رہتا ہے۔ڈرے ہوئے انسان کے لیے ہر امکان ایک ٹریجڈی ہے۔اس کے لیے ہر واقعہ ایک حادثہ ہے۔ خوف زدہ انسان خود کو اس بھری دنیا میں تنہا محسوس کرتا ہے۔خوف احساسِ تنہائی ضرور پیدا کرتا ہے۔خوف زدہ انسان کی مثال ایسے ہے، جیسے کسی وسیع صحرا میں تنہا مسافر کو رات آجائے۔اور جب انسان اپنے وجود سے بے خبر ہو ، اسے اپنے وجود کا احساس بھی مشکل سے ہوتا ہے۔خوف سے بچنے کا واحد، مناسب اور سہل طریقہ یہی ہے کہ انسان میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے۔ یہ خوف ، ہر خوف سے نجات دلاتا ہے۔انسان اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دے تو ہر خوف ختم ہو جاتا ہے۔اگرمنشائے الہٰی کو مان لیا جائے تو نہ زندگی کا خوف رہتا ہے نہ موت کا۔نہ امیری کا ، نہ غریبی کا۔نہ عزت کی تمنا ، نہ ذلت کا ڈر۔یہ سب اس کے انداز ہیں ۔ وہ جو چاہے عطا کرے۔ ہمیں راضی رہنا ہے۔ورنہ ہماری سر کشی اور خود پسندی کی سزا صرف یہی ہے کہ ہمیں اندر سے دبوچ لیا جائے۔ظاہر کے جسم میں تو کوئی خراش نہ ہو ، لیکن اندر سے باطنی وجود قاش قاش اور پاش پاش ہو چکا ہو۔  جب زمین والوں کی بد اعمالیاں حد سے بڑھ جائیں تو آسمان سے عذاب کا دیباچہ خوف کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔ممالک ، حکومتیں ، معاشرے، تہذیبیں ، افراد غرض یہ کہ ہر ذی جان خوف زدہ ہوتا ہے۔ہر شخص یہی محسوس کرتا ہے کہ نہ جانے کب کیا ہو جائے۔ ہر ارتقاءاندیشے سے دو چار ہوتا ہے۔ہر شے ایک بے نام اندیشے کے سائے میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔

جب انسان خدا سے دور ہو جائے تو سکون انسان سے دور کر دیا جاتا ہے۔اور اس کی جگہ اندیشہ اور خوف مسلط کر دیا جاتا ہے۔ جب زندگی اپنی افادیت، معنویت اور تقدس کھو دے تو نتیجہ خوف کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے! ۔ انسان جب انسانیت ترک کر دے تو اسے خوف سے بچا نا مشکل ہے۔خوف اور مسلسل خوف ، بے وجہ اور بے معنی خوف، ایک عذاب ہے۔اس کربِ مسلسل سے بچنے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ انسان خوفِ خدا رکھے۔انسان یہ نہ بھولے کہ اس کا قیام عارضی ہے ۔ اسے ضرور اسی راستے پر گامزن ہونا ہے جس پر اس کے آباﺅ اجداد سفر کر گئے۔خیال اور عمل کا فرق کم کرنے سے خوف کم ہو جاتا ہے۔اپنے حاصل اور حق میں فرق مٹ جائے تو خوف مٹ جاتا ہے۔  خوف کسی غلطی، کسی غفلت، کسی گناہ اور کسی جرم کی یاد ہی کا نام ہے۔خوف خود کوئی شے نہیں۔ یہ صرف نشاندہی ہے ، کسی نا روا عمل کی۔کسی نامناسب رویے کا نتیجہ ہے۔ خوف زدہ انسان اوّل تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا اور اگر کر بھی لے تو غلط فیصلہ کر جاتا ہے۔ خوف اعصاب شکن بیماری ہے۔ اس سے انسان کی تمام فکری صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں اور اس کی شخصیت ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔    خوف کا پسندیدہ مسکن انسان کا دل ہے ، جس میں احساسِ گناہ تو ہو لیکن گناہ چھوڑنے کی طاقت نہ ہو۔خوف زدہ انسان کی ہر بازی مات، ہر جنگ شکست اور ہر کوشش ناکام ہوتی ہے۔خوف ، خوراک سے طاقت اور نیند سے راحت چھین لیتا ہے۔سب سے بد قسمت ہے وہ انسان جو اپنے مستقبل سے خائف ہو۔جدا ہونے والے ہم راز اور ادب نہ کرنے والی اولاد سے خوف آتا ہے۔ اگر خیال کی اصلاح ہو جائے تو خوف دور ہو سکتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں پر توبہ کر لی جائے تو خوف دور جاتا ہے۔   اللہ کی رحمت پر بھروسہ کر لیا جائے، اس کے فضل سے مایوسی نہ ہونے دی جائے تو خوف نہیں رہتا۔کوئی رات ایسی نہیں جو ختم نہ ہوئی ہو۔کوئی غلطی ایسی نہیں جو معاف نہ کی جا سکے ۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس پر رحمت کے دروازے بند ہوں، رحم کرنے والے کا کام ہی یہی ہے کہ رحم کرے۔رحم اس فضل کو کہتے ہیں جو انسانوں پر ان کی خامیوں کے باوجود کیا جائے۔اور یہ رحم ہوتا ہی رہتا ہے۔کسی کو خوف زدہ نہ کیا جائے تو خوف کا عذاب ٹل جاتا ہے۔ دعا سے خوف دور ہوتا ہے اور دعا کا حاصل اور اس کا ماحاصل ہی یہی ہے کہ یہ ہمیں ہمارے خوف سے نجات دلاتی ہے۔

حضرت واصف علی واصف رح کی تصنیف ”دل دریا سمندر “ سے انتخاب

0 comments:

Post a Comment